اقبال اور مسلم نوجوان
یوں تو اقبال اپنی شاعری کے ذریعے پوری انسانیت سے مخاطب ہیں مگر خصوصی طور پر انہوں نے ملت اسلامیہ کو اپنے خطاب کا مرکز بنایا ہے لیکن فکر و شعر اقبال کے اس بحر پیکراں میں نمایاں طور ہر محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کا اصل مخاطب مسلم نوجوان ہے۔ اسی واسطے انہوں نے نئی نسل تک اپنا پیغام پہنچا کر اسکے اندر احساس خودی بیدار کرنے کی کوشش کی ہے جس سے وہ نا آشنا ہے۔
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے ماضی میں مسلمانوں کی شان و شوکت اور دور حاضر کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی کسمپرسی کا نقشہ کھینچا اور مسلمانوں کے دل میں احیائے اسلام کی تڑپ پیدا کر کے ولولہ تازہ بخشا۔ انہوں نے براہ راست مسلم نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے دعوت فکر و عمل دی ہے۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
آبا و اجداد کی عظمت بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں۔
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اس میں شک نہیں مسلمان قوم کا جذبہ سرد پڑ چکا تھا لیکن ابھی آزادی کی رمق باقی تھی اسی لئے اقبال پر امید تھے لہذا پکار اٹھے ۔
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
علامہ اقبال کے نزدیک اس ذلت اور پستی کی وجود اسلامی اصولوں سے روگردانی، مغرب کی اندھا دھند تقلید اور محنت و سخت کوشی سے گریز کے رحجانات ہیں۔
ترے صوفے ہیں فرنگی، ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
عمارت کیا، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلیمانی
یہ صورت حال علامہ کے لئے تکلیف دہ ہے چنانچہ انکی تلقین یہ ہے کہ وہ مغرب کی تقلید چھوڑ کر خودداری کے راستے پر گامزن ہوں کیونکہ ان کے نزدیک فکر اور خودی ہی دو کارگر ہتھیار ہیں جن کے ذریعے کار گزار عمل میں باطل قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ مسلم نوجوانوں کی خودی جس قدر مضبوط اور مستحکم ہوگی وہ اسی قدر شجاعت کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ فرماتے ہیں
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
ایک اور جگہ کہتے ہیں
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی، خود نگری کا
علامہ کی شاعری میں شاہین کا اشارہ مسلمان نوجوانوں کے لئے استعمال ہوا ہے جب وہ کہتے ہیں۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام ترا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
مزید کہا
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اور پھر فرمایا
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ
چونکہ نوجوان نسل نے حکومت کا نظم و نسق سنبھالنا ہے علامہ چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل میں ذوق خداداد کے ساتھ ساتھ قوت عمل بھی ہو جس کے لئے وہ دور آخر کے کلام میں اقبال کی بیتابیوں کی سچی تصویر ہے
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق مری نظر بخش دے
مرا دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری آرزوئیں مری
امیدیں مری جستجوئیں مری
مرے قافلے میں لوٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
اقبال بجا طور پر یہ محسوس کرتے تھے کہ نوجوان ہی واحد طبقہ ہے جو ذوق عمل کی دولت سے مالامال ہے اور انہی کے ہاتھوں انقلاب برپا ہو سکتا تھا یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی تمام امیدیں نوجوانوں سے وابستہ کر لی تھیں۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
بد قسمتی سے ہماری قوم علامہ اقبال کے اتحاد اور یک جہتی کے پیام کو بھلا کر نااتفاقیوں کا شکار ہو چکی ہے اور اتحاد کے اس فلسفے کو بھلا چکی ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اس وقت جب دنیا بھر کے مسلمان ابتلاء اور آزمائش سے دوچار ہیں اور عالم اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ علامہ کی روح آج بھی بے تابانہ اضطراب میں اس بات کی منتظر ہے کہ نوجوانوں کے عزائم، انکی ہمتیں، انکے حوصلے اور ولولے اقبال کے مطلوبہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔ اقبال کی شاعری آج بھی ہمارے ذوق عمل کیلئے ایک سند کا درجہ دکھتی ہے۔ علامہ کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ مایوس نہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ہمیں ہونے دیتے ہیں۔ راہوں کا تعین اور سنگ میل کی نشان دہی کرتے چلے جاتے ہیں اور یہی انکی اعلی ظرفی اور بلند ہمتی ہے
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ایک صدی میں بھی اقبال کا یہ پیغام آکر دلوں میں اتر جائے تو بس یہی تجدید عہد کافی ہے وہ پژمردہ دلوں کو زندہ تمنا دے رہے ہیں انکے مطابق خزاں بھی بہار ہی کا پیش خیمہ ہے کیونکہ ہر تاریک رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے ۔
یہ نغمہء فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
جب تک اقبال کا کلام ہمارے سامنے ہے ہم اس سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے اور انکا پیغام ہمیں مایوسیوں کی آتھاہ گہرائیوں سے نکال کر ترقی کے مناظر پر ہمیشہ گامزن رکھتا رہے گا۔