اقبال کا شاہین اور آج کا نوجوان
ہلکے نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں اڑتے بادلوں اور پرندوں نے ہمیشہ سے ہی انسان کی سوچ کو مسحور رکھا اور اس کے اندر بھی یہ خواہش انگڑائیاں لیتی رہی کہ کاش آسمان کی وسعتیں سمٹ جائیں اور وہ بھی ان اڑتے بادلوں اور پرندوں کی طرح نیلگوں آسمان کی وسعتوں میں کہیں کھو جائے۔ اسی سوچ کا کرشمہ ہے کہ انسان نے جہاز ایجاد کیا اور اپنی خواہش کو پر لگا کر آسمان کو چھونے کا خواب کسی حد تک پورا کیا لیکن علامہ اقبال تو اپنی قوم کے ہر جوان کو اس خواب کی تعبیر دیتے ہیں کہ وہ بھی ذرا سی کوشش سے آسمان کی وسعتوں کو محدود کر سکتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے قوم کے نوجوانوں کو شاہین کا تصور دیا وہ قوم کے نوجوان سے مخاطب ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اندر شاہینی صفات پیدا کرے اور آسمان کی وسعتوں کو مسخر کرے
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں
علامہ اقبال ایک انقلاب آفرین شاعر ہیں۔ انقلاب آفرین ہستی وہ ہوتی ہے جو زمانے کو نئی سوچ دیتی ہے اور پرانے الفاظ اور خیالات کو مفاہیم کے نئے جہان عطا کرتی ہے۔ اقبال سے قبل بھی ہمیں عربی، فارسی، انگریزی اور اردو شاعری میں مختلف پرندوں کا ذکر ملتا ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پرندوں کی دنیا میں سے ایک ایسے پرندے کا انتخاب کیا جو اپنے اندر درویشی کی صفت تو رکھتا ہے لیکن اس کی نظر آسمان کی وسعتوں پر رہتی ہے۔ اقبال شاہین کی اس صفت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
علامہ اقبال نے مشرق و مغرب کے علوم کا گہرا مطالعہ کیا۔ خاص طور سے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کے زوال کی اہم وجہ ان کی بےعملی ہے۔ اب نہ ان میں پہلی جیسی حرارت رہی ہے اور نہ ہی ان کی پرواز بلند ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان میں وہی جذبہ بیدار کیا جائے جو ان کو ثریا تک لے گیا تھا۔ اس کے لیے اقبال اللہ کے حضور اپنی آرزو کا اظہار کرتے ہیں کہ جو نورِ بصیرت ان کے پاس ہے وہی امتِ مسلمہ کے نوجوانوں میں عام ہو جائے اور ان شاہینوں کو پھر سے وہی بال و پر عطا ہو جائیں جو ان کو پھر سے اوج پر لے جائیں۔
نوجوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اقبال جیسے انقلاب آفرین شاعر کی نظرِ انتخاب آخر شاہین پر ہی کیوں ٹھہری اور آخر شاہین میں ایسی کون سی صفات ہیں جوکہ وہ امتِ مسلمہ کے نوجوانوں میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اس سوال کا جواب اقبال کے ہی ایک خط سے ملتا ہے۔ وہ شاہین کی درج ذیل صفات کا ذکر کرتے ہیں۔
بلند پرواز ہے
دور اندیش ہے
تیز نگاہ ہے
مردار نہیں کھاتا
آشیانہ نہیں بناتا
علامہ اقبال کے ان خیالات کا اظہار ان کے ان اشعار سے ہوتا ہے۔
گزر اوقات کر لیتا ہے وہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبال کی شاعری میں تصور شاہین خاص اہمیت کا حامل ہے وہ امت مسلمہ کے ہر نوجوان میں شاہینی صفات دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ایسا شاہین جس کی پرواز آسمان کی وسعتوں کو چیر دے جو مشرق سے مغرب تک کے آسمانوں پر اپنی بادشاہت قائم کرے، جو اپنے لیے جہان تازہ کی تلاش کرے اس کے افکار تازہ کی نمو کرے۔ آج کچھ لوگ یاس کا شکار نظر آتے ہیں ، ان کو آسمان پر گدھوں کے پروں کی آواز تو سنائی دیتی ہے لیکن وہ شاہینوں کو شاید دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اقبال کے شاہین ہی تھے جنہوں نے حصول پاکستان کے لئے گھر گھر روشنیوں کے چراغ روشن کئے اور وقت آنے پر اپنی جانوں کے نذرانے دے کر پاکستان کی صورت میں آزاد فضاؤں کو آنے والی نسلوں کا نصیب بنا دیا۔ وہ اقبال ہی کے شاہین تھے جنہوں نے 1948 میں مکار ہندو بنیئے کی پہلی چال کو ہی ناکام بنا دیا ۔ وہ بھی اقبال ہی کے شاہین تھے جنہوں نے 1965 میں عیار ہمسائے کے حملے کو اس طور ناکام بنا دیا کہ دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے اور وہ دشمن جو کہ چند گھنٹوں میں لاھور کو فتح کرنے کا خواب آنکھوں میں سجا کر آیا تھا اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور ان شاہینوں نے پاکستان کی فضاؤں کو اپنے پروں سے اس طرح ڈھانپ دیا یہیں پر دشمن فوج کے سامنے ڈھال بن گئے اور مکار ہندو بنیئے کو ایک بار پھر منہ کی کھانے پر مجبور کر دیا اور دسمبر 1971 کے سورج نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اقبال کے 90 ہزار شاہینوں کو مکار دشمن نے سازش کے جال میں الجھا لیا ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا المناک لمحہ تھا جب ان جانبازوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا لیکن ان شاہینوں کے سر تنے رہے اور جب یہ شاہین آزاد فضاؤں میں لوٹے تو انکی تندی اور تیزی کئی گنا بڑھ چکی تھی اور وہ پھر سے نئے عزم کے ساتھ پاک فضاؤں کی نگہبانی کے لیے محو پرواز ہو گئے ۔
1998 میں ایک بار پھر اقبال کے یہ شاہین اس وقت فضاؤں میں اترے جب عیار دشمن نے ایٹمی دھماکے کرکے پاک فضاؤں پر خوف کے بادل مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ لیکن اس موقع پر بھی اقبال کے شاہینوں نے ثابت کر دیا کہ وہ وطن کے دفاع سے غافل نہیں ۔ چاغی کی فضائیں شاہینوں کے نعروں سے گونج اٹھیں اور یہ گونج مشرق سے مغرب تک کی فضاؤں کو چیرتی گئیں۔ امت مسلمہ کے شاہینوں کی بلند پروازی اور دور اندیشی کے نتیجہ میں پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن کر ابھرا گویا علامہ اقبال نے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو جو پیغام دیا وہ خاص طور سے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے حیات آفرین ثابت ہوا۔
آج پاکستان اور آمت مسلمہ جن مصائب کا شکار ہے ان سے نکلنے کے لئے اقبال کے شاہینوں کو ایک بار پھر میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے ۔ پاک فضائیں امت کے ان شاہینوں کی منتظر ہیں۔ یہ شاہین آج کے نوجوان ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج کے نوجوانوں میں شاہینی صفات بیدار کریں انہیں کرگس اور شاہین کا فرق سمجھائیں تاکہ مسلمان ایک بار پھر اپنا کھیلا ہوا آسمان حاصل کر سکیں۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں